نوجوان دین سے بیزار کیوں ؟

0
345

-خاکسار فیضان
گاندربل کشمیر
رابطہ: -9596128378

مغرب کی طرف جاو¿ گا تو ڈوب جاو¿ گے۔ نوجوانوں کی اہمیت:-
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں نوجوان کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں کا کردار بہتر رہا اس قوم کو ترقی نصیب ہوئی۔
تاریخ کا عظیم ترین انقلاب نبی محترم کی قیادت میں ہی لیجیے، غرض دنیا میں جو بھی تبدیلیاں آئیں چاہیے وہ کسی بھی قسم کی تھی. ان تبدیلیوں کے پیچھے نوجوانوں نے جو کردار ادا کیا وہ ہی ان تبدیلیوں کا باعث بنا ہے.
حضرت ابن مسعود ؓسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” یعنی قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے۔عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟(ترمذی باب صفتہ القیامتبہ)
اگر غور کیا جائے تو اس حدیث پاک میں چار سوال جوانی سے تعلق رکھتے ہیں – ”ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس میں جوانی کا دور بھی شامل ہے۔ مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کا تعلق بھی اسی عمر سے ہے۔” نوجوان ہی ایک قوم کو ترقی یافتہ بنانے کی خاصیت رکھتا ہے۔ ایک نوجوان کی اہمیت و افادیت کو بیان کرنے کے لئے مجتبی فاروق اپنی کتاب ” عصر حاضر اور نوجوان ” میں لکھتے ہیں کہ ”قوتوں،صلاحیتوں،امنگوں،جفاکشی،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔کسی بھی قوم و ملک کی کامیابی و ناکامی، فتح و شکت، ترقی و تنزل اور عروج و زوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی و نشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا، عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھر کنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فرمارہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے زریعے آئی ہے ۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی بیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم و ملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز ہو? ہے۔ ”(صفحہ نمبر 3)
اتنا ہی نہ¸ں بلکہ ایک نوجوان کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے بہت سے شاعروں نے شعر کہے ہیں۔بقول علامہ اقبال
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ابھی ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں

ا قبال نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو بلندی پر اپنا مسکن بناتا ہے۔ اپنی تیز نگہی کے باعث وہ بلندی سے ہی اپنا شکار تلاش کرلیتا ہے۔ اقبا ل شاہین کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر کا مسلم جوان تیز، چست اور اپنے ہدف کو پورا کرنے والا بنے اور اس کا اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے تھے ۔اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ نوجوانوں پر کتنی زمہ داریاں عای¿د ہوتی ہیں۔اور نوجوانی کا دور کتنی اہمیت کا حامل ہے۔
نوجوان دین سے بیزار:
لیکن افسوس ہمارے نوجوانوں کو اپنی کی زمہ داریوں کا اکے اس نہیں۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق وادی کشمیر کے ۸۰فیصد نوجوان منشیات کے عادی بن گئے ہیں اور ۵۳فیصد لڑکیاں بھی اس شرمناک کار میں ملوث ہیں۔ ہمارے نوجوان آن لائن گیموں کے اتنے عادی بن گئے ہیں کہ اگر اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑھے وہ بلا ہچکچاہٹ کریں گے ا۔ایسی گیموں میںPub G نے اپنا نام بلند کر دیا اور ہر نوجوان کو اپنی آغوش میں لے کر دکھایا۔ نوجوان اپنا قیمتی وقت ان ہی جیسی گیموں کو کھیلنے میں صرف کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو وادی کشمیر کی تاریخ میں بارھویں جماعت کا سب سے بدترین رزلٹ پچھلے سال آیا وجہ آپ کے سامنے عیاں ہے۔اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو یہ ایک اعلیٰ ہتھیار ہے لیکن دور حاضر کا نوجوان اس کا استعمال فحشائیت کے رجحان کو بڑھاوا دینے کے لئے کرتا ہے۔ افسوس تو اس بات سے ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے مغربی تہذیب کا رنگ اختیار کیا ہے۔ موجودہ دور کے نوجوانوں کے کانوں میں بوہی میاں (Bohemia) ، ٹانگوں میں مائیکل جیکسن، ہاتھوں میں آئءفون، زیب تن مغربی کپڑے غرض ہر ایک ادا میں مغربی تہذیب کا رنگ موجود ہے۔ اور مغربی تہذیب کے متعلق علامہ اقبال فرماتے ہیں
یہی سبق دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج اقبال۔
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاو گے۔
علامہ اقبال اس شعر میں مغربی تہذیب کی مخالفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مغرب کی طرف جو بھی جاتا ہے وہ ڈوب جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین اشاروں میں کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی حالت اس کے برعکس ہے۔ ہمارے نوجوان خود کو مغربی تہذیب کے پیروکار ہونے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ اور مغربی تہذیب میں ڈوب گئے ہیں۔اور مغربی تہذیب کو اپنانے سے ہی کشمیر میں بے حیائی فھل رہی ہے۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مرد پر اللہ کی لعنت فرماتے ہیں جو کہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرے اور اس عورت پر اللہ کی لعنت فرماتے ہیں جو کہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
لیکن آج مرد اور عورت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آج مرد اور عورت دونوں سکن ٹائٹ پہنتے ہیں۔ مردوں نے عورتوں کا حلیہ بنا رکھا ہے اور عورتوں نے مردوں کا حلیہ بنا رکھا ہے۔ اور یہ خامی زیادہ تر نوجوانوں میں پائی جاتی ہے۔ اب نوجوانوں نے حیائی اور فحشائیت کی تمام حدیں پار کرلی ہیں کہ اب نوجوان اپنے والدین کی عزت بھی نہیں کرتے۔ اور ماں باپ کی ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ” اگر والدین میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا اور نہ جھڑکنا اور ان سے (ادب اور) نرمی سے پیش آنا۔”(سورہ بنی اسرائیل)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب تو استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی پامال ہے – استادوں کی عزت کا مادہ نوجوانوں سے لبریز ہو چکا ہے۔ استاد کے مقام کو گریا گیا ہے۔ غرض آج ایک مسلمان نوجوان برائی کا پیکر بن گیا ہے۔
وجہ بیزاری: –
آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ مسلمان نوجوان کیوں منشیات کا عادی بن گیا ہے؟مسلمان نوجوان کیوں فضول چیزوں میں اپنا وقت،ہنر اور پیسا ضائع کر رہا ہے؟ آخر مسلمان نوجوان کیوں مغرب کا غلام بن گیا ہے؟ مسلمان نوجوان کیوں والدین اور استاد کی عزت نہیں کرتا؟ ان سب سوالوں ایک جواب یہ بھی ہے کہ مسلمان نوجوان سائنس کا مطالعہ شوق و زوق سے کر رہا ہے مگر قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کرتا۔ سائنس ایک نوجوان کو جینے کا طریقہ نہیں سکھائے گا بلکہ یہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ہی ہیں جو ایک نوجوان کو جینے کا طریقہ سکھائے گا۔ یہ قرآن اور حدیث ہی ہے جو ایک نوجوان کو منشیات سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک حدیث ہے کہ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے جان کے تحفظ میں مارا جائے وہ شہید ہے”(ترمذی)
اسلام ایک جان بچانے والے کو شہید کا درجہ دیتا ہے۔ یہ قرآن اور حدیث ہی ہیں جو ایک نوجوان کو وقت کے قدر بتاتا ہے۔سورہ عصر میں اللہ تعالی نے وقت کی قسم دکھا کر ہمیں وقت کی قدر بتائی۔یہ قرآن اور احادیث ہم ہیں جو ایک نوجوان کو والدین کی عزت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ” اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہنا ”(سورہ البقر?)
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آیا اور عرض کیا ” یا رسول اللہ میں اللہ تعالی کے راہ میں جہاد کر نا چاہتا ہوں ” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تیرے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟” شخص نے کہا ” جی ہاں دونوں زندہ ہیں۔” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جا انکی خدمت کر وہی تیرے لیے سب سے بڑا جہاد ہے”
قرآن اور حدیث ہی ایک نوجوان کو بے حیائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شرم و حیاء سراسر بھلائی ہے۔” غرض قرآن اور حدیث ہی ایک نوجوان کن رہبری کرتے ہیں۔
علاج: –
ایک نوجوان ہر لحاظ سے آگے ہونا چاہیئے وہ قرآن اوز سائنس کا مطالعہ شوق و زوق سے کرنا چاہیئے۔ قرآن مجید کی پہلی آیت یہی ہے” اقرا” یعنی پڑھو- اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دینی تعلیم حاصل کرنے کرنے کی کوشش ہر مسلمان پر فرض ہے۔” اس لیے ہمیں سائنس کو قرآن سے زیادہ ترجیح نہیں دینی چاہیئے۔ مسلمان نوجوان کو چاہیئے کہ وہ دونوں قرآن اور سائنس کا مطالعہ کرے اسی میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا